Sunday, July 11, 2010

جن پہ تکیہ تھا ۔۔۔ ایک آرٹیکل

یہ میرا ابتدائی آرٹیکل تھا جسے بہت سے مہربانوں نے پسند کیا تھا اور  یہ اردو پوائنٹ پر بھی پبلش ہوا تھا۔



3 comments:

Anonymous said...

السلام علیکم،
اچھی تحریر ہے۔ شعر والے تکیے تو اب سنی سنائی بات لگتی ہے۔ ریڈی میڈ کا دور دورہ ہے شاید اس وجہ سے۔

کائنات بشیر said...

بہت شکریہ،
آپ نے میرا لکھا آرٹیکل پسند کیا۔ جی ہاں آج تو نہیں مگر کبھی یہ ہمارے کلچر کا حصہ رہے ہیں۔

عمر وزیر said...

آپ کا آرٹیکل اچھا ہے اور مجھے کافی پسند آیا ہے۔
میرا تعلق ڈیرہ غازی کے ایک قصبہ سے ہے اور وہاں پر اب بہی یہ رواج ہے کہ تکیہ پر پھلو اور طوطے وغیرہ بنے ہوتے ہیں اور مجھے بہت پسند ہیں