Wednesday, July 7, 2010

فطرت اور مظاہر فطرت




دریا کو اپنی موج کی طغیانیوں سے کام
کشتی کسی کی پار ہو یا درمیاں رہے


پتہ نہیں کیوں تصویر دیکھ کر یہ شعر بے اختیار یاد آ گیا۔ فرق اتنا کہ یہاں آگ کا دریا ہے۔
دراصل ہم فطرت اور مظاہر فطرت کو اپنی مخصوص صورت حال، وقتی ضرورت اور موڈ کے مطابق دیکھتے ہیں۔

جیسے بارش میں محبوب یہ دعا مانگتا ہے۔" اے ابر کرم اتنا برس کہ وہ جا نہ سکیں "
لیکن قرض خواہ سے تنگ آیا قرض دار یوں دعا گو ہوتا ہے " اے ابر کرم اتنا برس کہ وہ آ نہ سکیں"


فطرت کی اپنی منطق ہے، لیکن ہم اسے اپنے تابع رکھنا چاہتے ہیں اور یہ غیر منطقی ہے۔
بارش، سردی، گرمی، آندھی ، طوفان، آتش فشاں کا پھوٹنا وغیرہ تو، یہ سب فطرت کے وقوع ہیں۔ بطور مثال، جغرافیائی عمل کے تحت بادل بنتے اور بارش ہوتی ہے، لیکن اس کا نیچے زمین پر کھیلے جانے والے میچ اور سٹیڈیم میں بھیگتے افراد سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ بس یہی عمل یہاں رواں ہے۔

ہمارا دل بھی ایک آتش فشاں ہی تو ہے، جس کے اندر ناپسندیدہ واقعات، باتیں، جذبات حالات کی جبری کشمکش سے نبرد آزما ہونے والی قوت جیسے عوامل جمع ہوتے رہتے ہیں، اور پھر وہ لاوے کی طرح اندر ہی اندر پکتے رہتے ہیں اور موقع پاتے ہی یہ آتش فشاں پھوٹ نکلتا ہے اور پھر اسکی زد میں آس پاس کا ماحول اور کتنے ہی لوگ لپیٹ میں آ جاتے ہیں۔