Saturday, August 28, 2010

ڈاکیا ڈاک لایا ۔۔۔۔۔ از کائنات بشیر

ڈاکیا ڈاک لایا
 
ڈاک کا سلسلہ کب شروع ہوا ہو گا ؟
شائد جب انسان کو دوسروں کی مدد کی ضرورت محسوس ہوئی ہو گی۔ زمانہ تو ایڈوانس نہیں ہوا تھا مگر ضروریات بڑھنی شروع ہو گئی تھیں۔ تو سب سے پہلے انسان نے پیغام رسائی کے لیےاپنی طرف ہی دیکھا کہ اپنے کام خود جو کرنے۔۔۔ پتوں کا لباس بنانے سے لے کرغاروں میں رہنے، اپنا شکار تلاش کرنے اور جنگل میں منگل منانے تک کی عادت جو تھی۔ اس وقت یہ پیغام بے زبانی ہوا کرتا تھا جسے ٹارزن تک اس کے ساتھی اڑتے پھدکتے جا کر پہنچایا کرتے تھے۔ پھر اس پیغام کو زباں مل گئی۔ کاغذ قلم کا دور تو تھا نہیں۔ اس لیے اونٹ یا گھوڑے پر ایک آدمی زبانی یہ پیغام لے جایا کرتا۔ دیکھا جائے پیغام تو مختصر ایک ہی ہوتا تھا مگر دو نفوس لے جا رہے ہوتے تھے۔ کیا عجب اس کا متن اتنا بھاری ہو۔

اس کے بعد بادشاہوں کا دور آیا، تبھی ایلچی اور قاصد عمل میں آئے۔ اور بعض دفعہ یہ وفد کی صورت دربار میں حاضر ہوتے۔ اور انھی کے ذریعے بادشاہ اپنے ملک میں بیٹھے بیٹھے دوسرے ملک کے بادشاہ کو اپنا موڈ دکھا دیا کرتے تھے۔ اگر خوش ہوتے تو خوامخواہ تحفے تحائف بھیج دیتے۔ غصے کے موڈ میں ہوتے تو دوسرے بادشاہ کو جنگ کی وارننگ بھیج دیتے تڑی لگا دیتے۔

البتہ کہانیوں کے شہزادے شہزادیوں کے دور میں کسی کو کبوتر کے پنجے سے خط باندھ کر بھیجنے کا نادر آئیڈیا آیا ۔ کیونکہ یہ شہزادہ ، شہزادی ہل کر پانی تک تو پیتے نہیں تھے مگر کبوتروں کو دانہ خود کھلایا کرتے تھے۔ حالانکہ یہ کام بھی تو وہ کنیز، غلام سے کروا سکتے تھے۔ یا پھر یہ انوکھا طریقہ کسی عاشق کی ایجاد ہو گا۔ جو قید خانے میں مقید ہو گا۔ وقت بھی تھا فراغت بھی۔ غم بھرا گیت گاتے ڈبڈباتی نظروں سے آسمان کو تکتے تکتے کبوتر نظر کے حصار میں آیا ہو گا۔ تو ساتھ ہی یہ نسخہ بھی۔ ویسے شکر ہے یہ پیغام رساں دیکھنے میں بھلا تو معلوم ہوتا ہو گا۔ کہیں کوے کو اس کام کے لیے منتخب نہیں کر لیا۔

جب خط لے جانے کے لیے کبوتر ایلچی دریافت ہو گیا تو تب چھٹی لکھنے کی نوبت آئی۔ پھر یہ درد بھری چٹھی ایک ۔۔۔ خوبصورت پر۔۔۔ سے لکھی جانے لگی۔ ویسے یہ خاص قلم بھی جب کسی اہم موقعے پر دستیاب نہ ہو سکا۔ تو انگلی سے بھی یہ پریم پتر لکھا گیا۔ اور دو چار جذبات بھرے آنسو بھی اس پر گرا دئیے گئے۔

پھر یہ کبوتر فیشن سالہا سال بلکہ نسل در نسل چلا۔ پر وقت کے ساتھ شائد اس پرواز میں بھی کوتاہی آنے لگی۔ تبھی تو سلمان خان۔۔۔ میں نے پیار کیا۔۔۔ فلم میں کبوتر کی منتیں واسطے کر رہے تھے، کبوتر جا جا جا کبوتر جا ۔۔۔ اور موڈی کبوتر اڑ کر کبھی اس کے ہاتھ اور کبھی دیوار پر جا کر بیٹھ جاتا تھا۔

اب آگے نہ تو جنگلوں کا دور رہا نہ بادشاہوں کا۔ پہلے جو خط پیغام کا سلسلہ مجبوری ضرورت میں کیا جاتا تھا۔ اب اسے شوق اور خوبصورتی سے کیا جانے لگا۔ چمکتے گولڈن قلم دستیاب ہو گئے اور خوبصورت رائیٹنگ پیڈز۔ اب باقاعدہ ڈاک خانے بھی بن گئے۔ ڈاک لانے لیجانے والے نے بھی اپنے کو بخوشی ڈاکیا کہلوایا۔ اور اس ڈاکیا کو فلموں میں بھی بڑا اہم رول ملا اور لوگوں کی زندگیوں میں جھانکنے کا موقع مل گیا۔ جو کبھی تو ان کے لیے خوشی کا پیام لے جاتا اور کبھی غم کا سندیسہ۔ کبھی اس کی چٹھیاں ہیرو ہیروئن کو ملوا دیتیں اور کبھی دیر سے ملنے پر انھیں جدا کر دیتیں۔ اور کبھی کوئی وصیت چٹھی شارٹ کٹ کے ذریعے غریب کو امیر بنا دیتی۔

یہ سلسلہ بڑی کامیابی سے چلا۔ اب چٹھی کے انتظار کے ساتھ ساتھ ڈاکیے کا بھی انتظار رہنے لگا۔
یہ دور ڈاکیے کا دور تھا جس میں اسے صرف ایک چیلنج کا سامنا تھا یعنی تار کا ۔۔۔۔ لیکن یہ آپشن اتنا فکر والا نہ تھا جو ڈاکیا کی جگہ لے لیتا۔ کیونکہ ایک تو تار دینا مہنگا پڑتا۔ لفظوں کی گنتی کے حساب سے رقم کی ادائیگی ہوتی۔ دوسرا تار عموما کسی بری خبر کا تاثر دیتا۔۔۔ سو جن کو تار ملتا ان کی آنکھوں کے آگے اندھیرا سا چھا جاتا، دل کانپنے لگتا اور یااللہ خیر کا ورد شروع ہو جاتا۔ کیونکہ تار میں عموما یا تو کسی کی بیماری آخری حد کو پہنچی ہوتی یا کوئی اس جہان فانی کو چھوڑ چکا ہوتا۔ سو یہ ڈاکیا کی جگہ کبھی نہیں لے سکا۔

بہت سالوں کوئی نیا طریقہ دستیاب نہ ہونے پر یہ سلسلہ کامیابی سے جاری رہا۔ پر اب کچھ سالوں پہلے وقت اور زمانے نے ایک لمبی چھلانگ لگا دی ہے۔ اور جب سے انٹرنیٹ اور موبائیل نے لوگوں کی زندگی میں جگہ بنا لی ہے تو یہ کاروبار کچھ مندا پڑ گیا ہے۔ اب خط کی جگہ میسج نے لے لی ہے اور لوگ موبائیل ہاتھ میں لے کر میسج کر کے خود ہی ڈاکیا بن گے ہیں، اور انٹرنیٹ کے ذریعے ای میل کر کے ڈاکیے کی راہ دیکھنا بند کر گئے ہیں۔ اور ہنگ لگا نہ پھٹکڑی اب قلم دوات، رائیٹنگ پیڈ، ڈاک ٹکٹ وقت سب کی بچت ہو گئی ہے۔ تو اب ڈاکیے کی بھی اہمیت کچھ سمٹ گئی ہے۔ اس کی ذمہ داری کی نوعیت کچھ بدل گئی ہے۔ کہہ سکتے ہیں اب لوگوں کی نجی زندگی میں ڈاکیا کی جذباتی ذمہ داری کم ہو گئی ہے مگر پریکٹیکل لائف میں ابھی اس کی ضرورت ہے۔

پر اب کہاں وہ زمانے رہے جب ہیروئن ایک چھٹی آنے پر پہلے اسے چومتی تھی۔ پھر سینے سے لگاتی تھی، اور ایک پیارا بھرا گانا گا کر

میرے محبوب کا خط آج میرے نام آیا
دل کو تسکین ملی روح کو آرام آیا

پھر خط کھولتی تھی۔۔۔



*********

Friday, August 13, 2010

یوں دی ہمیں آزادی

میرا یہ آرٹیکل چودہ اگست کو اردو پوائنٹ پر بھی پبلش ہو چکا ہے،
 
یوم آزادی
 
یوں دی ہمیں آزادی کہ دنیا ہوئی حیران
اے قائد اعظم ترا احسان ہے احسان

بچپن میں جب بھی کبھی یہ ترانہ سنا تو دل اک عقیدت، جوش اور جذبے سے معمور ہو جاتا تھا اور اپنی پہچان اپنے وطن پر اک فخر اور غرور سا محسوس ہوتا۔ اور ان قوموں پر اک رحم سا محسوس ہوتا جو ابھی آزادی کی جنگ لڑتے لڑتے اس منزل کو پانے کی جدوجہد میں تھیں اور جبر غلامی کے عفریت کو اپنا خون پلانے پر مجبور تھیں۔

بذات خود آزادی کسے اچھی نہیں لگتی، اک ننھی سی چڑیا کو پنجرے میں بند کر دیکھیے، وہ اپنے راگ الاپنے بھول جائے گی۔ حسرت سے نیلے آسمان کو دیکھتے اپنے پر پھیلائے گی، مگر پنجرے کی دیواروں سے ہی پھڑ پھڑا کر رہ جائے گی۔ اور اگر اسے سونے کے پنجرے میں بھی بند کر دیا جائے۔ تو اس کی آزادی کی قیمت کے لیے دنیا کی تمام دولت بھی بےکار ہو گی۔ بس اس پر اک ننھا سا احسان کر دیں، پنجرہ کھول دیجئے اور اسے آزادی کی پرواز دیجیے، وہ فورا یہ راگ الاپتی آسمان کی بلندیوں میں کھو جائے گی۔
پنچھی بنی اڑتی پھروں مست گگن میں
آج میں آزاد ہوں دنیا کے چمن میں

اقبال کا خواب جو نہ جانے کتنے لوگوں کی زندگی کی تعبیر بنا۔ اور قائد اعظم کی کوششوں سے منزل تک پہنچا۔ اور لاکھوں لوگوں کی عظمتوں کے ایثار سے پورا ہوا۔ تب پاک سرزمین نصیب ہوئی۔ انسان کی سب سے بڑی چاہ اپنے گھر کی ہوتی ہے۔ جب گھر مل جائے تو پھر اسے سجانے سنوارنے کی۔ گھر اپنا گھرپیارا گھر پاک وطن تو مل گیا تھا۔ جب یہ ملا تو سنگل سٹوری تھا، تریسٹھ سال گزر گئے اب تک تو اسے ٹرپل سٹوری بن جانا چاہیئے تھا مگر۔ ۔

لوگ ایکٹروں کو دیکھ کر خوش ہو لیتے ہیں پر والد صاحب نے اپنے ٹین ایج میں قائد اعظم کو لائیو دیکھا تھا کسی جلسہ گاہ میں تقریر کرتے۔ جس پر میں اور بھائی بھی اک فخرسا محسوس کرتے تھے کہ انھوں نے اتنی عظیم ہستی کو دیکھا ہوا ہے اور ہم ان سے بار بار قائد اعظم بارے پوچھا کرتے تھے۔ کہ وہ کیسے تھے اور کیسے دکھتے تھے؟ تب وہ بتایا کرتے تھے کہ قائد اعظم دیکھنے میں ایک کمزور، نحیف ہستی نظر آتے تھے مگر ان کی آواز اتنی بھر پور اور پرجوش ہوتی تھی کہ وہ اک ولولہ نظر آتا تھا ان کی تقریر میں۔
پھر اقبال کی یہ خوبصورت نظم بہت سننے میں آتی تھی اور سن سن کر زبانی یاد تھی۔
لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری
زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری
اور یہ نظم سن کرخود بخود اک شمع سی اندر روشن ہو جاتی تھی، جو اک اچھا انسان محب وطن اچھا شہری بننے کی ترغیب دیتی تھی۔ سکول میں جب اسمبلی اٹینڈ کرتے تودعا کے بعد روزانہ یہ پڑھتے،
پاک سر زمین شاد باد
کشور حسین شاد باد
اور روزانہ یہ دعا ہمیں یاد دہانی کراتی اپنے پاک وطن کی، اس کی خوبصورتی کی، اس کی عظمتوں کی، اور دل سے اک عجیب سا جذبہ اور کیفیت ابھرتی جو ہمارے ملک کی عظمت کو برقرار رکھنے کے لیے محب وطن بننے کی متقاضی ہوتی۔ اور پاک ترانہ تو ہمارے اندر ایسا رچ بس گیا تھا کہ صاف لگتا کہ مذہب کے بعد ہم نے اس کا احترام کرنا ہے۔ جہاں بھی بجتا تو فورا کھڑے ہو جاتے، رک جاتے۔ اور ترانے کے ادب کا نظارہ چند بار سینما میں بھی دیکھنے میں نظر آیا۔ فلم کے دوران بے شک لوگ ڈائلاگ بازی پر اونچی آوازے کس رہے ہوں۔ شور شرابا ہو رہا ہو۔ بچوں کی ریں پیں چل رہی ہو۔ لیکن ترانہ شروع ہوتے ہی سب منظم ہو جاتا۔ سب احتراما کھڑے ہو جاتے، لوگوں کو جیسے سانپ سونگھ جاتا اور بچوں کو بھی رونا بھول جاتا اور مزے کی بات پھر بھی احتیاطا سینما کے گیٹ تب تک نہ کھلتے جب تک ترانہ پورا نہ ہو جاتا۔ سمجھ لیں اک جذبہ داخلی بھی ہوتا جو منظم رکھتا مگر پھر خارجی انتظامات بھی ہوتے۔

مگر اب کیا ہوا؟ اب بھی وہی چاند ہے وہی تارے وہی سورج وہی نظارے۔ چودہ اگست آج بھی دھوم دھام سے منائی جاتی ہے۔ جگہ جگہ سجایا جاتا ہے ترانے بجتے ہیں، چھوٹے چھوٹے بچے تک پرچم کی جھنڈیاں لہرا رہے ہوتے ہیں۔ مگر وہ بات بنتی نظرنہیں آتی جو ہمیں یہ بتائے کہ ہاں ہم واقعی محب وطن ہیں۔ میرا خیال ہے اب زمانے میں نفسا نفسی کی چال چلتے دکھاوا جو آ گیا ہے۔ تو یہ چیزیں اب صرف ظاہری پیمانے سے ناپی جانے لگی ہیں۔ اور دلوں سے وہ جذبہ ختم ہو گیا ہے جو کبھی اک جوش اک ولولہ پیدا کرتا تھا۔ اور جس نے ہمیں آزادی جیسی نعمت دلائی تھی اور اپنے گھر کی فیلنگ دی تھی۔ لگتا ہے ہم اپنے مدار سے ہٹ گئے ہیں۔ راستہ بھٹک گئے ہیں۔ اور آگے مزید خوبصورت منزلوں کی بجائے مسائل کے کالے پہاڑ اور چٹانیں راستہ روکی کھڑی ہیں۔ تبھی تو دم گھٹنے لگا ہے۔ کاش اے کاش اب پھر کوئی اقبال کی طرح حسین خواب دیکھے، اور جناح کی طرح ہمارا بیڑہ پار لگا دے،اور ہم بھی چڑیا کی طرح آزادی کا گیت گا سکیں۔


**************