Saturday, August 28, 2010

ڈاکیا ڈاک لایا ۔۔۔۔۔ از کائنات بشیر

ڈاکیا ڈاک لایا
 
ڈاک کا سلسلہ کب شروع ہوا ہو گا ؟
شائد جب انسان کو دوسروں کی مدد کی ضرورت محسوس ہوئی ہو گی۔ زمانہ تو ایڈوانس نہیں ہوا تھا مگر ضروریات بڑھنی شروع ہو گئی تھیں۔ تو سب سے پہلے انسان نے پیغام رسائی کے لیےاپنی طرف ہی دیکھا کہ اپنے کام خود جو کرنے۔۔۔ پتوں کا لباس بنانے سے لے کرغاروں میں رہنے، اپنا شکار تلاش کرنے اور جنگل میں منگل منانے تک کی عادت جو تھی۔ اس وقت یہ پیغام بے زبانی ہوا کرتا تھا جسے ٹارزن تک اس کے ساتھی اڑتے پھدکتے جا کر پہنچایا کرتے تھے۔ پھر اس پیغام کو زباں مل گئی۔ کاغذ قلم کا دور تو تھا نہیں۔ اس لیے اونٹ یا گھوڑے پر ایک آدمی زبانی یہ پیغام لے جایا کرتا۔ دیکھا جائے پیغام تو مختصر ایک ہی ہوتا تھا مگر دو نفوس لے جا رہے ہوتے تھے۔ کیا عجب اس کا متن اتنا بھاری ہو۔

اس کے بعد بادشاہوں کا دور آیا، تبھی ایلچی اور قاصد عمل میں آئے۔ اور بعض دفعہ یہ وفد کی صورت دربار میں حاضر ہوتے۔ اور انھی کے ذریعے بادشاہ اپنے ملک میں بیٹھے بیٹھے دوسرے ملک کے بادشاہ کو اپنا موڈ دکھا دیا کرتے تھے۔ اگر خوش ہوتے تو خوامخواہ تحفے تحائف بھیج دیتے۔ غصے کے موڈ میں ہوتے تو دوسرے بادشاہ کو جنگ کی وارننگ بھیج دیتے تڑی لگا دیتے۔

البتہ کہانیوں کے شہزادے شہزادیوں کے دور میں کسی کو کبوتر کے پنجے سے خط باندھ کر بھیجنے کا نادر آئیڈیا آیا ۔ کیونکہ یہ شہزادہ ، شہزادی ہل کر پانی تک تو پیتے نہیں تھے مگر کبوتروں کو دانہ خود کھلایا کرتے تھے۔ حالانکہ یہ کام بھی تو وہ کنیز، غلام سے کروا سکتے تھے۔ یا پھر یہ انوکھا طریقہ کسی عاشق کی ایجاد ہو گا۔ جو قید خانے میں مقید ہو گا۔ وقت بھی تھا فراغت بھی۔ غم بھرا گیت گاتے ڈبڈباتی نظروں سے آسمان کو تکتے تکتے کبوتر نظر کے حصار میں آیا ہو گا۔ تو ساتھ ہی یہ نسخہ بھی۔ ویسے شکر ہے یہ پیغام رساں دیکھنے میں بھلا تو معلوم ہوتا ہو گا۔ کہیں کوے کو اس کام کے لیے منتخب نہیں کر لیا۔

جب خط لے جانے کے لیے کبوتر ایلچی دریافت ہو گیا تو تب چھٹی لکھنے کی نوبت آئی۔ پھر یہ درد بھری چٹھی ایک ۔۔۔ خوبصورت پر۔۔۔ سے لکھی جانے لگی۔ ویسے یہ خاص قلم بھی جب کسی اہم موقعے پر دستیاب نہ ہو سکا۔ تو انگلی سے بھی یہ پریم پتر لکھا گیا۔ اور دو چار جذبات بھرے آنسو بھی اس پر گرا دئیے گئے۔

پھر یہ کبوتر فیشن سالہا سال بلکہ نسل در نسل چلا۔ پر وقت کے ساتھ شائد اس پرواز میں بھی کوتاہی آنے لگی۔ تبھی تو سلمان خان۔۔۔ میں نے پیار کیا۔۔۔ فلم میں کبوتر کی منتیں واسطے کر رہے تھے، کبوتر جا جا جا کبوتر جا ۔۔۔ اور موڈی کبوتر اڑ کر کبھی اس کے ہاتھ اور کبھی دیوار پر جا کر بیٹھ جاتا تھا۔

اب آگے نہ تو جنگلوں کا دور رہا نہ بادشاہوں کا۔ پہلے جو خط پیغام کا سلسلہ مجبوری ضرورت میں کیا جاتا تھا۔ اب اسے شوق اور خوبصورتی سے کیا جانے لگا۔ چمکتے گولڈن قلم دستیاب ہو گئے اور خوبصورت رائیٹنگ پیڈز۔ اب باقاعدہ ڈاک خانے بھی بن گئے۔ ڈاک لانے لیجانے والے نے بھی اپنے کو بخوشی ڈاکیا کہلوایا۔ اور اس ڈاکیا کو فلموں میں بھی بڑا اہم رول ملا اور لوگوں کی زندگیوں میں جھانکنے کا موقع مل گیا۔ جو کبھی تو ان کے لیے خوشی کا پیام لے جاتا اور کبھی غم کا سندیسہ۔ کبھی اس کی چٹھیاں ہیرو ہیروئن کو ملوا دیتیں اور کبھی دیر سے ملنے پر انھیں جدا کر دیتیں۔ اور کبھی کوئی وصیت چٹھی شارٹ کٹ کے ذریعے غریب کو امیر بنا دیتی۔

یہ سلسلہ بڑی کامیابی سے چلا۔ اب چٹھی کے انتظار کے ساتھ ساتھ ڈاکیے کا بھی انتظار رہنے لگا۔
یہ دور ڈاکیے کا دور تھا جس میں اسے صرف ایک چیلنج کا سامنا تھا یعنی تار کا ۔۔۔۔ لیکن یہ آپشن اتنا فکر والا نہ تھا جو ڈاکیا کی جگہ لے لیتا۔ کیونکہ ایک تو تار دینا مہنگا پڑتا۔ لفظوں کی گنتی کے حساب سے رقم کی ادائیگی ہوتی۔ دوسرا تار عموما کسی بری خبر کا تاثر دیتا۔۔۔ سو جن کو تار ملتا ان کی آنکھوں کے آگے اندھیرا سا چھا جاتا، دل کانپنے لگتا اور یااللہ خیر کا ورد شروع ہو جاتا۔ کیونکہ تار میں عموما یا تو کسی کی بیماری آخری حد کو پہنچی ہوتی یا کوئی اس جہان فانی کو چھوڑ چکا ہوتا۔ سو یہ ڈاکیا کی جگہ کبھی نہیں لے سکا۔

بہت سالوں کوئی نیا طریقہ دستیاب نہ ہونے پر یہ سلسلہ کامیابی سے جاری رہا۔ پر اب کچھ سالوں پہلے وقت اور زمانے نے ایک لمبی چھلانگ لگا دی ہے۔ اور جب سے انٹرنیٹ اور موبائیل نے لوگوں کی زندگی میں جگہ بنا لی ہے تو یہ کاروبار کچھ مندا پڑ گیا ہے۔ اب خط کی جگہ میسج نے لے لی ہے اور لوگ موبائیل ہاتھ میں لے کر میسج کر کے خود ہی ڈاکیا بن گے ہیں، اور انٹرنیٹ کے ذریعے ای میل کر کے ڈاکیے کی راہ دیکھنا بند کر گئے ہیں۔ اور ہنگ لگا نہ پھٹکڑی اب قلم دوات، رائیٹنگ پیڈ، ڈاک ٹکٹ وقت سب کی بچت ہو گئی ہے۔ تو اب ڈاکیے کی بھی اہمیت کچھ سمٹ گئی ہے۔ اس کی ذمہ داری کی نوعیت کچھ بدل گئی ہے۔ کہہ سکتے ہیں اب لوگوں کی نجی زندگی میں ڈاکیا کی جذباتی ذمہ داری کم ہو گئی ہے مگر پریکٹیکل لائف میں ابھی اس کی ضرورت ہے۔

پر اب کہاں وہ زمانے رہے جب ہیروئن ایک چھٹی آنے پر پہلے اسے چومتی تھی۔ پھر سینے سے لگاتی تھی، اور ایک پیارا بھرا گانا گا کر

میرے محبوب کا خط آج میرے نام آیا
دل کو تسکین ملی روح کو آرام آیا

پھر خط کھولتی تھی۔۔۔



*********

Friday, August 13, 2010

یوں دی ہمیں آزادی

میرا یہ آرٹیکل چودہ اگست کو اردو پوائنٹ پر بھی پبلش ہو چکا ہے،
 
یوم آزادی
 
یوں دی ہمیں آزادی کہ دنیا ہوئی حیران
اے قائد اعظم ترا احسان ہے احسان

بچپن میں جب بھی کبھی یہ ترانہ سنا تو دل اک عقیدت، جوش اور جذبے سے معمور ہو جاتا تھا اور اپنی پہچان اپنے وطن پر اک فخر اور غرور سا محسوس ہوتا۔ اور ان قوموں پر اک رحم سا محسوس ہوتا جو ابھی آزادی کی جنگ لڑتے لڑتے اس منزل کو پانے کی جدوجہد میں تھیں اور جبر غلامی کے عفریت کو اپنا خون پلانے پر مجبور تھیں۔

بذات خود آزادی کسے اچھی نہیں لگتی، اک ننھی سی چڑیا کو پنجرے میں بند کر دیکھیے، وہ اپنے راگ الاپنے بھول جائے گی۔ حسرت سے نیلے آسمان کو دیکھتے اپنے پر پھیلائے گی، مگر پنجرے کی دیواروں سے ہی پھڑ پھڑا کر رہ جائے گی۔ اور اگر اسے سونے کے پنجرے میں بھی بند کر دیا جائے۔ تو اس کی آزادی کی قیمت کے لیے دنیا کی تمام دولت بھی بےکار ہو گی۔ بس اس پر اک ننھا سا احسان کر دیں، پنجرہ کھول دیجئے اور اسے آزادی کی پرواز دیجیے، وہ فورا یہ راگ الاپتی آسمان کی بلندیوں میں کھو جائے گی۔
پنچھی بنی اڑتی پھروں مست گگن میں
آج میں آزاد ہوں دنیا کے چمن میں

اقبال کا خواب جو نہ جانے کتنے لوگوں کی زندگی کی تعبیر بنا۔ اور قائد اعظم کی کوششوں سے منزل تک پہنچا۔ اور لاکھوں لوگوں کی عظمتوں کے ایثار سے پورا ہوا۔ تب پاک سرزمین نصیب ہوئی۔ انسان کی سب سے بڑی چاہ اپنے گھر کی ہوتی ہے۔ جب گھر مل جائے تو پھر اسے سجانے سنوارنے کی۔ گھر اپنا گھرپیارا گھر پاک وطن تو مل گیا تھا۔ جب یہ ملا تو سنگل سٹوری تھا، تریسٹھ سال گزر گئے اب تک تو اسے ٹرپل سٹوری بن جانا چاہیئے تھا مگر۔ ۔

لوگ ایکٹروں کو دیکھ کر خوش ہو لیتے ہیں پر والد صاحب نے اپنے ٹین ایج میں قائد اعظم کو لائیو دیکھا تھا کسی جلسہ گاہ میں تقریر کرتے۔ جس پر میں اور بھائی بھی اک فخرسا محسوس کرتے تھے کہ انھوں نے اتنی عظیم ہستی کو دیکھا ہوا ہے اور ہم ان سے بار بار قائد اعظم بارے پوچھا کرتے تھے۔ کہ وہ کیسے تھے اور کیسے دکھتے تھے؟ تب وہ بتایا کرتے تھے کہ قائد اعظم دیکھنے میں ایک کمزور، نحیف ہستی نظر آتے تھے مگر ان کی آواز اتنی بھر پور اور پرجوش ہوتی تھی کہ وہ اک ولولہ نظر آتا تھا ان کی تقریر میں۔
پھر اقبال کی یہ خوبصورت نظم بہت سننے میں آتی تھی اور سن سن کر زبانی یاد تھی۔
لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری
زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری
اور یہ نظم سن کرخود بخود اک شمع سی اندر روشن ہو جاتی تھی، جو اک اچھا انسان محب وطن اچھا شہری بننے کی ترغیب دیتی تھی۔ سکول میں جب اسمبلی اٹینڈ کرتے تودعا کے بعد روزانہ یہ پڑھتے،
پاک سر زمین شاد باد
کشور حسین شاد باد
اور روزانہ یہ دعا ہمیں یاد دہانی کراتی اپنے پاک وطن کی، اس کی خوبصورتی کی، اس کی عظمتوں کی، اور دل سے اک عجیب سا جذبہ اور کیفیت ابھرتی جو ہمارے ملک کی عظمت کو برقرار رکھنے کے لیے محب وطن بننے کی متقاضی ہوتی۔ اور پاک ترانہ تو ہمارے اندر ایسا رچ بس گیا تھا کہ صاف لگتا کہ مذہب کے بعد ہم نے اس کا احترام کرنا ہے۔ جہاں بھی بجتا تو فورا کھڑے ہو جاتے، رک جاتے۔ اور ترانے کے ادب کا نظارہ چند بار سینما میں بھی دیکھنے میں نظر آیا۔ فلم کے دوران بے شک لوگ ڈائلاگ بازی پر اونچی آوازے کس رہے ہوں۔ شور شرابا ہو رہا ہو۔ بچوں کی ریں پیں چل رہی ہو۔ لیکن ترانہ شروع ہوتے ہی سب منظم ہو جاتا۔ سب احتراما کھڑے ہو جاتے، لوگوں کو جیسے سانپ سونگھ جاتا اور بچوں کو بھی رونا بھول جاتا اور مزے کی بات پھر بھی احتیاطا سینما کے گیٹ تب تک نہ کھلتے جب تک ترانہ پورا نہ ہو جاتا۔ سمجھ لیں اک جذبہ داخلی بھی ہوتا جو منظم رکھتا مگر پھر خارجی انتظامات بھی ہوتے۔

مگر اب کیا ہوا؟ اب بھی وہی چاند ہے وہی تارے وہی سورج وہی نظارے۔ چودہ اگست آج بھی دھوم دھام سے منائی جاتی ہے۔ جگہ جگہ سجایا جاتا ہے ترانے بجتے ہیں، چھوٹے چھوٹے بچے تک پرچم کی جھنڈیاں لہرا رہے ہوتے ہیں۔ مگر وہ بات بنتی نظرنہیں آتی جو ہمیں یہ بتائے کہ ہاں ہم واقعی محب وطن ہیں۔ میرا خیال ہے اب زمانے میں نفسا نفسی کی چال چلتے دکھاوا جو آ گیا ہے۔ تو یہ چیزیں اب صرف ظاہری پیمانے سے ناپی جانے لگی ہیں۔ اور دلوں سے وہ جذبہ ختم ہو گیا ہے جو کبھی اک جوش اک ولولہ پیدا کرتا تھا۔ اور جس نے ہمیں آزادی جیسی نعمت دلائی تھی اور اپنے گھر کی فیلنگ دی تھی۔ لگتا ہے ہم اپنے مدار سے ہٹ گئے ہیں۔ راستہ بھٹک گئے ہیں۔ اور آگے مزید خوبصورت منزلوں کی بجائے مسائل کے کالے پہاڑ اور چٹانیں راستہ روکی کھڑی ہیں۔ تبھی تو دم گھٹنے لگا ہے۔ کاش اے کاش اب پھر کوئی اقبال کی طرح حسین خواب دیکھے، اور جناح کی طرح ہمارا بیڑہ پار لگا دے،اور ہم بھی چڑیا کی طرح آزادی کا گیت گا سکیں۔


**************

Sunday, July 11, 2010

جن پہ تکیہ تھا ۔۔۔ ایک آرٹیکل

یہ میرا ابتدائی آرٹیکل تھا جسے بہت سے مہربانوں نے پسند کیا تھا اور  یہ اردو پوائنٹ پر بھی پبلش ہوا تھا۔



Friday, July 9, 2010

ادیبوں کی حس مزاح



ادیبوں کی حس مزاح


دلی میں ایک بہت مشہور طوائف تھی ۔۔۔ جس کا نام " شیریں " تھا ۔ مگر اس کی ماں بہت بے ڈول اور بری شکل کی تھی ۔
ایک مجلس میں " شیریں " اپنی ماں کے ساتھ مجرے کے لیے آئی ۔ سرسید احمد خان ۔۔۔ بھی وہاں موجود تھے ۔۔۔ اور ۔۔۔ ان کے برابر ان کے ایک ایرانی دوست بیٹھے ہوئے تھے ۔
وہ شیریں کی ماں کو دیکھ کر کہنے لگے "مادرش بسیار تلخ است " اس پر سرسید نے فورا جواب دیا " گرچہ تلخ است ولیکن برشیریں دارد۔"

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مرزاغالب صاحب کے خسرمرزا الہی بخش خان پیری مریدی بھی کرتے تھے ۔۔۔ اور ۔۔۔ اپنے سلسلے کے شجرہ کی ایک ایک کاپی اپنے مریدوں کو دیا کرتے تھے ۔ ایک دفعہ انھوں نے مرزا صاحب سے شجرہ نقل کرنے کے لئے کہا ۔۔۔ مرزا صاحب نے نقل تو کر دی ۔۔۔ مگر ۔۔۔ اس طرح کہ ایک نام لکھ دیا اور ایک نام چھوڑ دیا ۔۔۔ تیسرا پھر لکھ دیا ۔۔۔ اور ۔۔۔ چوتھا پھر حذف کر دیا ۔ان کے خسرصاحب یہ نقل دیکھ کر بہت ناراض ہوئے ۔۔۔ کہ ۔۔۔ یہ کیا غضب کیا ۔۔۔۔
مرزا صاحب بولے " حضرت ، آپ اس کا کچھ خیال نہ فرمائیے ۔ شجرہ دراصل خدا تک پہنچنے کا ایک زینہ ہے ، سو زینے کی ایک ایک سیڑھی ۔۔۔ اگر ۔۔۔ بیچ سے نکال دی جائے تو چنداں ہرج واقع نہیں ہوتا ۔ آدمی ذرا اچک اچک کے اوپر چڑھ سکتا ہے ۔ "
ان کے خسرصاحب یہ سن کر برافروختہ ہوئے اور انھوں نے نقل پھاڑ ڈالی ۔۔۔ اور ۔۔۔ پھر کبھی مرزا سے شجرہ نقل کرنے کی فرمائیش نہیں کی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایک روز داغ دہلوی نماز پڑھ رہے تھے ۔۔۔ کہ ۔۔۔ ایک صاحب ان سے ملنے آئے اور انھیں نماز میں مشغول دیکھ کر لوٹ گئے ۔ اسی وقت داغ صاحب نے سلام پھیرا ۔۔۔ ملازم نے بتایا ۔۔ تو ۔۔ فرمانے لگے " دوڑ کر جا ابھی راستے میں ہوں گے "وہ بھاگا بھاگا گیا اور ان صاحب کو بلا لایا ۔ داغ نے ان سے پوچھا : آپ آ کر چلے کیوں گئے ۔ ؟ وہ کہنے لگے " آپ نماز پڑھ رہے تھے اس لئے میں چلا گیا ۔ "
داغ نے فورا جواب دیا " حضرت ، میں نماز پڑھ رہا تھا ۔ لاحول تو نہیں پڑھ رہا تھا جو آپ بھاگے ۔ "

۔۔۔۔۔۔۔۔۔


ایک بار داغ دہلوی ۔۔۔ اجمیر گئے ۔ جب وہاں سے رخصت ہونے لگے ۔۔ تو ۔۔۔ ان کے شاگرد نواب عبداللہ خاں مطلب نے نے کہا
" استاد آپ جا رہے ہیں ۔ جاتے ہوئے کوئی نشانی تو دیتے جائیے ۔ "
یہ سن کر داغ نے بلا تامل کہا
داغ کیا کم ہے نشانی کا ، یہی یاد رہے


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


مولانا حالی کے پاس ان کے ایک ملنے والے غزل لکھ کر لائے ۔۔۔ اور ۔۔۔ برائے اصلاح پیش کی ۔
غزل میں کوئی بھی مصرع عیب سے خالی نہ تھا ۔ مولانا حالی نے تمام غزل پڑھنے کے بعد ۔۔۔ بے ساختہ فرمایا " بھئی غزل خوب ہے اس میں تو کہیں انگلی رکھنے کو بھی جگہ نہیں ۔ "

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اے۔۔۔ نیم باز آنکھوں سے از کائنات

ون اردو سائٹ پر مزاحیہ تحریر نگاری کا مقابلہ ابھی دو اڑھائی ماہ پہلے ہوا تھا۔ میں اس مقابلے کی میزبان تھی اور اس مزاحیہ تحریر نگاری مقابلے کے لیے میری یہ تحریر شامل تھی۔

بی۔۔۔ نیم باز آنکھوں سے از کائنات

سی۔۔ نیم باز آنکھوں سے از کائنات



Wednesday, July 7, 2010

فطرت اور مظاہر فطرت




دریا کو اپنی موج کی طغیانیوں سے کام
کشتی کسی کی پار ہو یا درمیاں رہے


پتہ نہیں کیوں تصویر دیکھ کر یہ شعر بے اختیار یاد آ گیا۔ فرق اتنا کہ یہاں آگ کا دریا ہے۔
دراصل ہم فطرت اور مظاہر فطرت کو اپنی مخصوص صورت حال، وقتی ضرورت اور موڈ کے مطابق دیکھتے ہیں۔

جیسے بارش میں محبوب یہ دعا مانگتا ہے۔" اے ابر کرم اتنا برس کہ وہ جا نہ سکیں "
لیکن قرض خواہ سے تنگ آیا قرض دار یوں دعا گو ہوتا ہے " اے ابر کرم اتنا برس کہ وہ آ نہ سکیں"


فطرت کی اپنی منطق ہے، لیکن ہم اسے اپنے تابع رکھنا چاہتے ہیں اور یہ غیر منطقی ہے۔
بارش، سردی، گرمی، آندھی ، طوفان، آتش فشاں کا پھوٹنا وغیرہ تو، یہ سب فطرت کے وقوع ہیں۔ بطور مثال، جغرافیائی عمل کے تحت بادل بنتے اور بارش ہوتی ہے، لیکن اس کا نیچے زمین پر کھیلے جانے والے میچ اور سٹیڈیم میں بھیگتے افراد سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ بس یہی عمل یہاں رواں ہے۔

ہمارا دل بھی ایک آتش فشاں ہی تو ہے، جس کے اندر ناپسندیدہ واقعات، باتیں، جذبات حالات کی جبری کشمکش سے نبرد آزما ہونے والی قوت جیسے عوامل جمع ہوتے رہتے ہیں، اور پھر وہ لاوے کی طرح اندر ہی اندر پکتے رہتے ہیں اور موقع پاتے ہی یہ آتش فشاں پھوٹ نکلتا ہے اور پھر اسکی زد میں آس پاس کا ماحول اور کتنے ہی لوگ لپیٹ میں آ جاتے ہیں۔


Sunday, July 4, 2010

ہر سانس گراں بار ۔۔۔ ایک کالم

ہر سانس گراں بار

جب سے یہ کائنات بنی ہے۔ رنگوں سے اس میں رنگینی بھری ہے۔ زندگی کے ساتھ وقت نے بھی اپنا سفر شروع کیا ہے۔ تو وہ سفر جاری و ساری ہے، وقت شائد ہی کبھی ٹھہرا محسوس ہوا ہو۔ ورنہ ہر دور میں یہ بھاگتا ہی رہا ہے۔ تیز اور تیز، پھر اور تیز۔ اور اس کا ساتھ دینے کو ہمیشہ زمانہ ہی پیچھے بھاگتا رہا۔ اگر کبھی ٹھہرا ہے تو صرف غم کا زمانہ، دل کا فسانہ اور وہ بھی دل کے اندر۔

میں جب بھی زمانے کا چلن محسوس کرنے لگتی ہوں، تو ساتھ ساتھ اپنے بزرگوں اور والدین کے دور میں بھی جھانکنے کی کوشش کرنے لگتی ہوں۔ تو پھر مجھے وہ لوگ خوش قسمت لگتے ہیں جو ایک ہی دور میں پیدا ہوئے، اسی میں اپنی زندگی جیئے، اسی میں اپنی جاگتی آنکھوں سے انھوں نے جو خواب دیکھے، ان میں کچھ پورے ہوئے اور کچھ نہ ہوئے تو انھوں نے اسے اتنا اپنے اوپر طاری نہ کیا۔ کچھ اپنی قسمت کے کھاتے میں ڈالے اور باقی صبر کے خانے میں فٹ کیے اور باری آنے پر چلے گئے۔

زمانے کی اتھل پتھل کا انھیں اتنا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ اور جن روایتوں رسموں میں انھوں نے آنکھ کھولی، انھیں ہی نبھاتے نبھاتے وہ اپنی زندگی جی گئے۔ مہذب، بامروت، رواداری کے دائرے میں ہی انھوں نے اپنے آپ کو رکھا۔ وہ سادگی کے دور وہ دل کو سمجھا لینے منا لینے کے زمانے تب ہی تھے کہ نہ انھیں زمانے کے خلاف جانا پڑا اور نہ ہی انھیں زمانے کی لات پڑی۔

اب یہ مت سمجھیے گا کہ وہ کوئی بہت بے چارے، مظلوم قسم کے لوگ تھے۔ جو کسی سادہ سے دور میں پیدا ہوئے۔ اور ان کو زمانے کی ہوا نہیں لگی اور وہ نا آشنا ہی دنیا سے چلے گئے۔ آپ پیچھے مڑ کر دیکھیں۔ آپ کو ایسے دور اور قومیں نظر آئیں گی۔ جنہوں نے تاریخ پلٹ دی۔ قوموں سے ہٹ کر انفرادی طور پر لیں تو کتنی تگڑی ساسیں ان ادوار میں ہوئیں، بالکل جاگیردارنیوں کے مافق۔ جنہوں نے قوموں کی طرح گھروں پر راج کیا اور برسوں اپنا سکہ جمائے رکھا۔ لیکن، انقلاب اور تبدیلی تو ممکنات میں سے ہیں۔ میں تو آپ کو یہاں کچھ علیحدہ قسم کے لوگوں بارے بتانا چاہتی ہوں۔ جو بیچارے حیرت زدہ سے بیٹھے زمانے کا چلن دیکھ رہے ہیں۔ اور انھیں ابھی تک یقین نہیں آ رہا کہ وہ زمانے کی چکی میں پس چکے ہیں اور وقت کی مار کھا رہے ہیں۔

زندگی کا سفر تو ہمیشہ کی طرح کبھی ہموار تو کبھی ٹیڑھی میڑھی پگڈنڈی پر جاری تھا۔ تو ہوا کچھ یوں کہ۔۔۔ پچھلے سالوں سے زمانے کی ہوا نے اچانک اپنا رخ بدل لیا ہے۔ اب اس بدلے وقت کا تعین آپکو خود کرنا پڑے گا۔
عام طور پر ایک جنریشن سے دوسری جنریشن کا گیپ پچیس سے تیس سال کا مانا جاتا تھا۔ اور اتنا فاصلہ پھلانگنے کے لیے دونوں جنریشن تیار و آمادہ ہوتی تھیں۔ آج کے دور زندگی میں یقینا نئی جنریشن بھی تیار ہو رہی ہے مگر وہ لوگ بھی اندر شامل ہیں، جو اپنا تیس سالوں والا سرکل پورا نہ کر سکے۔ اور سونامی کی طرح انھیں بھی وقت کے دھارے نے آ گھیرا۔

ایک ہوتی ہے تہجد کی نماز، سجھ لیں ایک ٹرین جا رہی ہے۔ اس میں اللہ والے لوگ وقت سے پہلے ہی جا کر بیٹھ جاتے ہیں، تاکہ ٹرین چھوٹنے کا امکان ہی نہ رہے۔
ورنہ عموما لوگ عین وقت پر جا کر اس میں سوار ہوتے ہیں۔
البتہ کچھ آخری منٹ پر افراتفری مچانے والے لوگ قضا نماز لینے والے بھاگ بھاگ کر جا کر اس میں سوار ہوتے ہیں۔

ذرا اپنا تجزیہ کر دیکھیے کہ آپ اس میں زمانے کے کس چلن سے چلے؟
کیا آپ بھی گردش دوراں کا شکار ہوئے ہیں ؟
کیا آپ وقت زمانے کے اس رخ کے لیے پہلے سے تیار تھے۔ اور آپ نے حفاظتی بند باندھ لیے تھے ؟
یا جب یہ وقت سر پر آن پڑا تو آپ نے فکر اور چارا کرنا شروع کیا۔ ؟
یا جب آپ اس کا شکار ہو گئے تو آپ اس طوفان بے تمیزی سے بد حال ہو چکے تھے ؟
کیونکہ یہ ایک فطری عمل تھا جو ہونا ہی تھا۔ وقت نے یہ کروٹ تو لینا ہی تھی اور آخر زمانہ بھی کب تک سویا رہتا۔

زندگی میں بیلنس ، توازن جب بھی کھویا جائے گا۔ تب مسائل کے انبھار سامنے آ کھڑے ہوں گے۔ کچھ ایسا ہی ہوا، وقت کے ترازو میں ایک طرف زمانہ تھا اور دوسری طرف روایات، سادگی، خالص پن، محبتیں۔ کہ اچانک زمانے والے پلڑے میں افراط زر، لائف سٹائل،مصنوعی پن، بے مروتی جیسی چیزیں آن گریں اور وہ پلڑا جھک گیا۔

تو سمجھ لیں وہ لوگ جو ابھی اس گیپ کے آدھے پونے سال ہی گزار پائے تھے اور ابھی کچھ بے فکری کے عالم میں تھے، وقت کی مار انھی کو لگی۔ ملک میں ایک طرف مہنگائی بہت بڑھ گئی اور ایک طبقے کے پاس افراط زر، اور چیزوں کی بہتات۔ اور پھر ایک اچھے لائف سٹائل کو حاصل کرنے کی دوڑ سی لگ گئی۔ پہلے گھر میں ایک فرد کمانے والا ہوتا تھا اور سات آٹھ افراد ۔۔۔۔۔
اگرچہ کی روٹی مگرچہ کی دال
چناچہ کی چٹنی بڑی مزیدار
کے مصداق بخوبی بغیر گلے شکوے کے زندگی کی حقیقت جان کر گزارہ کر لیا کرتے تھے۔
اور مقابلے کی دوڑ بھی پہلے نہ تھی۔ جس کے پاس جتنا ہوا کرتا تھا، وہ اسی میں ہی قناعت پسند تھا۔ صبر اور شکر بھی دامن تھامے رہتے تھے۔ دنیا کو دنیا کی طرح لیا جاتا تھا۔اور آخرت کی فکر بھی دل میں دنیا کے لالچ کو کم کر دیتی تھی۔ لیکن اب ایسی بے مروتی کی ہوا چلنی شروع ہوئی کہ جس میں صرف اپنا آپ ہی دکھائی دینے لگا۔ سو اس دوڑ میں ہر کوئی شریک ہونے لگا۔ اپنی ہمت طاقت سے بڑھ کر۔ اور افراتفری کا ماحول ہو گیا اور بہت سی چیزیں اس کی زد میں آ کر ریزہ ریزہ ہونے لگیں۔ جن روایات، رسموں اور اصولوں کو ہم اپنے ساتھ لے کر چلا کرتے تھے۔ انھی کے بت سب سے پہلے پاش پاش ہوئے۔

طبقاتی دوڑ تو پہلے ہی جاری تھی۔ مگر اب اس میں واضح ایک طبقہ پیچھے رہتا نمایاں ہو رہا تھا۔ اور انفرادی دوڑ بھی جاری تھی۔ جس میں جیتنے والے ہار رہے تھے۔ میں یہاں چند ہارنے والوں پر نظریں جمائے ہوں۔ میری ہمدردی انھی لوگوں کے ساتھ ہے ۔۔۔ جنہوں نے اپنے فرائض خوب نبھائے اور جب اپنے حقوق لینے کا وقت آیا ہی چاہتا تھا۔ تو زمانے کا ناگ یکدم بیدار ہو گیا اور اس کی پھنکار کی زد میں وہ آ گئے ۔ جیسے
وہ بہو۔۔۔ جسں نے اپنی ساس کی جی جان سے خدمت کی اور سٹارپلس کے ڈرامے، ساس کے ڈرامے دیکھ کر تیار ہو کر خود ساس کے رتبے پر پہنچنے والی تھی۔ اور اپنی بہو کو ناچ نچانے والی تھی۔ مگر ایسا نہ کر سکی۔ بلکہ موجودہ دور کی بہو اس پر ساس کے حکم نامے کی طرح فائز ہو گئی۔

پھر خاص طور پر وہ لوگ، جو اپنے والدین کے بھی بہت فرمانبردار،کہنے میں رہے۔ اور اب جبکہ وہ اپنی اولاد کی تابعداری کا کریڈٹ لینا چاہتے تھے تو انھیں بھی گھٹنے ٹیکنے پڑے، نہ چاہتے ہوئے بھی اپنی اولاد کا بھی انھیں اتنا ہی کہنا ماننا پڑتا ہے جتنا اپنے والدین کا مانتے تھے۔ کہ اس کے سوا اب چارا نہیں۔

اور وہ سٹوڈنٹ، جنہوں نے اپنےاستاد کی جوتیاں سیدھی کیں اور استاد کی چھڑی بھی اپنے جسم پر سٹیمپ کی طرح لی۔۔۔ وہ استاد بن گئے، جنہیں کبھی والدین سے بھی اوپر کا درجہ دیا گیا تھا۔ لیکن آج وہ اپنے شاگردوں کے دلوں اور نظروں میں وہ مقام نہیں پا رہے۔ جن کے وہ حقدار ہیں۔ آج وہ اپنے شاگردوں کو ڈر ڈر کر پڑھاتے ہیں۔
اسی طرح کی قسموں کے کچھ اور مہربان بھی ہیں۔ اور یہ سب لوگ آپ کے اردگرد ہی ہیں۔ انھیں ڈھونڈئیے اور ان سے ہمدردی رکھیے۔ جو پہلے ہی زمانے کے ستائے ہوئے ہیں انھیں اور کیا ستانا۔۔ بلکہ ان کا ہاتھ پکڑ لیجیے، ممکن ہے وقت کے گھومتے اس پہیے پر نیچے جانے کی اگلی باری آپکی ہو۔

آرٹیکل ۔۔۔ بقلم کائنات بشیر