Sunday, July 4, 2010

ہر سانس گراں بار ۔۔۔ ایک کالم

ہر سانس گراں بار

جب سے یہ کائنات بنی ہے۔ رنگوں سے اس میں رنگینی بھری ہے۔ زندگی کے ساتھ وقت نے بھی اپنا سفر شروع کیا ہے۔ تو وہ سفر جاری و ساری ہے، وقت شائد ہی کبھی ٹھہرا محسوس ہوا ہو۔ ورنہ ہر دور میں یہ بھاگتا ہی رہا ہے۔ تیز اور تیز، پھر اور تیز۔ اور اس کا ساتھ دینے کو ہمیشہ زمانہ ہی پیچھے بھاگتا رہا۔ اگر کبھی ٹھہرا ہے تو صرف غم کا زمانہ، دل کا فسانہ اور وہ بھی دل کے اندر۔

میں جب بھی زمانے کا چلن محسوس کرنے لگتی ہوں، تو ساتھ ساتھ اپنے بزرگوں اور والدین کے دور میں بھی جھانکنے کی کوشش کرنے لگتی ہوں۔ تو پھر مجھے وہ لوگ خوش قسمت لگتے ہیں جو ایک ہی دور میں پیدا ہوئے، اسی میں اپنی زندگی جیئے، اسی میں اپنی جاگتی آنکھوں سے انھوں نے جو خواب دیکھے، ان میں کچھ پورے ہوئے اور کچھ نہ ہوئے تو انھوں نے اسے اتنا اپنے اوپر طاری نہ کیا۔ کچھ اپنی قسمت کے کھاتے میں ڈالے اور باقی صبر کے خانے میں فٹ کیے اور باری آنے پر چلے گئے۔

زمانے کی اتھل پتھل کا انھیں اتنا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ اور جن روایتوں رسموں میں انھوں نے آنکھ کھولی، انھیں ہی نبھاتے نبھاتے وہ اپنی زندگی جی گئے۔ مہذب، بامروت، رواداری کے دائرے میں ہی انھوں نے اپنے آپ کو رکھا۔ وہ سادگی کے دور وہ دل کو سمجھا لینے منا لینے کے زمانے تب ہی تھے کہ نہ انھیں زمانے کے خلاف جانا پڑا اور نہ ہی انھیں زمانے کی لات پڑی۔

اب یہ مت سمجھیے گا کہ وہ کوئی بہت بے چارے، مظلوم قسم کے لوگ تھے۔ جو کسی سادہ سے دور میں پیدا ہوئے۔ اور ان کو زمانے کی ہوا نہیں لگی اور وہ نا آشنا ہی دنیا سے چلے گئے۔ آپ پیچھے مڑ کر دیکھیں۔ آپ کو ایسے دور اور قومیں نظر آئیں گی۔ جنہوں نے تاریخ پلٹ دی۔ قوموں سے ہٹ کر انفرادی طور پر لیں تو کتنی تگڑی ساسیں ان ادوار میں ہوئیں، بالکل جاگیردارنیوں کے مافق۔ جنہوں نے قوموں کی طرح گھروں پر راج کیا اور برسوں اپنا سکہ جمائے رکھا۔ لیکن، انقلاب اور تبدیلی تو ممکنات میں سے ہیں۔ میں تو آپ کو یہاں کچھ علیحدہ قسم کے لوگوں بارے بتانا چاہتی ہوں۔ جو بیچارے حیرت زدہ سے بیٹھے زمانے کا چلن دیکھ رہے ہیں۔ اور انھیں ابھی تک یقین نہیں آ رہا کہ وہ زمانے کی چکی میں پس چکے ہیں اور وقت کی مار کھا رہے ہیں۔

زندگی کا سفر تو ہمیشہ کی طرح کبھی ہموار تو کبھی ٹیڑھی میڑھی پگڈنڈی پر جاری تھا۔ تو ہوا کچھ یوں کہ۔۔۔ پچھلے سالوں سے زمانے کی ہوا نے اچانک اپنا رخ بدل لیا ہے۔ اب اس بدلے وقت کا تعین آپکو خود کرنا پڑے گا۔
عام طور پر ایک جنریشن سے دوسری جنریشن کا گیپ پچیس سے تیس سال کا مانا جاتا تھا۔ اور اتنا فاصلہ پھلانگنے کے لیے دونوں جنریشن تیار و آمادہ ہوتی تھیں۔ آج کے دور زندگی میں یقینا نئی جنریشن بھی تیار ہو رہی ہے مگر وہ لوگ بھی اندر شامل ہیں، جو اپنا تیس سالوں والا سرکل پورا نہ کر سکے۔ اور سونامی کی طرح انھیں بھی وقت کے دھارے نے آ گھیرا۔

ایک ہوتی ہے تہجد کی نماز، سجھ لیں ایک ٹرین جا رہی ہے۔ اس میں اللہ والے لوگ وقت سے پہلے ہی جا کر بیٹھ جاتے ہیں، تاکہ ٹرین چھوٹنے کا امکان ہی نہ رہے۔
ورنہ عموما لوگ عین وقت پر جا کر اس میں سوار ہوتے ہیں۔
البتہ کچھ آخری منٹ پر افراتفری مچانے والے لوگ قضا نماز لینے والے بھاگ بھاگ کر جا کر اس میں سوار ہوتے ہیں۔

ذرا اپنا تجزیہ کر دیکھیے کہ آپ اس میں زمانے کے کس چلن سے چلے؟
کیا آپ بھی گردش دوراں کا شکار ہوئے ہیں ؟
کیا آپ وقت زمانے کے اس رخ کے لیے پہلے سے تیار تھے۔ اور آپ نے حفاظتی بند باندھ لیے تھے ؟
یا جب یہ وقت سر پر آن پڑا تو آپ نے فکر اور چارا کرنا شروع کیا۔ ؟
یا جب آپ اس کا شکار ہو گئے تو آپ اس طوفان بے تمیزی سے بد حال ہو چکے تھے ؟
کیونکہ یہ ایک فطری عمل تھا جو ہونا ہی تھا۔ وقت نے یہ کروٹ تو لینا ہی تھی اور آخر زمانہ بھی کب تک سویا رہتا۔

زندگی میں بیلنس ، توازن جب بھی کھویا جائے گا۔ تب مسائل کے انبھار سامنے آ کھڑے ہوں گے۔ کچھ ایسا ہی ہوا، وقت کے ترازو میں ایک طرف زمانہ تھا اور دوسری طرف روایات، سادگی، خالص پن، محبتیں۔ کہ اچانک زمانے والے پلڑے میں افراط زر، لائف سٹائل،مصنوعی پن، بے مروتی جیسی چیزیں آن گریں اور وہ پلڑا جھک گیا۔

تو سمجھ لیں وہ لوگ جو ابھی اس گیپ کے آدھے پونے سال ہی گزار پائے تھے اور ابھی کچھ بے فکری کے عالم میں تھے، وقت کی مار انھی کو لگی۔ ملک میں ایک طرف مہنگائی بہت بڑھ گئی اور ایک طبقے کے پاس افراط زر، اور چیزوں کی بہتات۔ اور پھر ایک اچھے لائف سٹائل کو حاصل کرنے کی دوڑ سی لگ گئی۔ پہلے گھر میں ایک فرد کمانے والا ہوتا تھا اور سات آٹھ افراد ۔۔۔۔۔
اگرچہ کی روٹی مگرچہ کی دال
چناچہ کی چٹنی بڑی مزیدار
کے مصداق بخوبی بغیر گلے شکوے کے زندگی کی حقیقت جان کر گزارہ کر لیا کرتے تھے۔
اور مقابلے کی دوڑ بھی پہلے نہ تھی۔ جس کے پاس جتنا ہوا کرتا تھا، وہ اسی میں ہی قناعت پسند تھا۔ صبر اور شکر بھی دامن تھامے رہتے تھے۔ دنیا کو دنیا کی طرح لیا جاتا تھا۔اور آخرت کی فکر بھی دل میں دنیا کے لالچ کو کم کر دیتی تھی۔ لیکن اب ایسی بے مروتی کی ہوا چلنی شروع ہوئی کہ جس میں صرف اپنا آپ ہی دکھائی دینے لگا۔ سو اس دوڑ میں ہر کوئی شریک ہونے لگا۔ اپنی ہمت طاقت سے بڑھ کر۔ اور افراتفری کا ماحول ہو گیا اور بہت سی چیزیں اس کی زد میں آ کر ریزہ ریزہ ہونے لگیں۔ جن روایات، رسموں اور اصولوں کو ہم اپنے ساتھ لے کر چلا کرتے تھے۔ انھی کے بت سب سے پہلے پاش پاش ہوئے۔

طبقاتی دوڑ تو پہلے ہی جاری تھی۔ مگر اب اس میں واضح ایک طبقہ پیچھے رہتا نمایاں ہو رہا تھا۔ اور انفرادی دوڑ بھی جاری تھی۔ جس میں جیتنے والے ہار رہے تھے۔ میں یہاں چند ہارنے والوں پر نظریں جمائے ہوں۔ میری ہمدردی انھی لوگوں کے ساتھ ہے ۔۔۔ جنہوں نے اپنے فرائض خوب نبھائے اور جب اپنے حقوق لینے کا وقت آیا ہی چاہتا تھا۔ تو زمانے کا ناگ یکدم بیدار ہو گیا اور اس کی پھنکار کی زد میں وہ آ گئے ۔ جیسے
وہ بہو۔۔۔ جسں نے اپنی ساس کی جی جان سے خدمت کی اور سٹارپلس کے ڈرامے، ساس کے ڈرامے دیکھ کر تیار ہو کر خود ساس کے رتبے پر پہنچنے والی تھی۔ اور اپنی بہو کو ناچ نچانے والی تھی۔ مگر ایسا نہ کر سکی۔ بلکہ موجودہ دور کی بہو اس پر ساس کے حکم نامے کی طرح فائز ہو گئی۔

پھر خاص طور پر وہ لوگ، جو اپنے والدین کے بھی بہت فرمانبردار،کہنے میں رہے۔ اور اب جبکہ وہ اپنی اولاد کی تابعداری کا کریڈٹ لینا چاہتے تھے تو انھیں بھی گھٹنے ٹیکنے پڑے، نہ چاہتے ہوئے بھی اپنی اولاد کا بھی انھیں اتنا ہی کہنا ماننا پڑتا ہے جتنا اپنے والدین کا مانتے تھے۔ کہ اس کے سوا اب چارا نہیں۔

اور وہ سٹوڈنٹ، جنہوں نے اپنےاستاد کی جوتیاں سیدھی کیں اور استاد کی چھڑی بھی اپنے جسم پر سٹیمپ کی طرح لی۔۔۔ وہ استاد بن گئے، جنہیں کبھی والدین سے بھی اوپر کا درجہ دیا گیا تھا۔ لیکن آج وہ اپنے شاگردوں کے دلوں اور نظروں میں وہ مقام نہیں پا رہے۔ جن کے وہ حقدار ہیں۔ آج وہ اپنے شاگردوں کو ڈر ڈر کر پڑھاتے ہیں۔
اسی طرح کی قسموں کے کچھ اور مہربان بھی ہیں۔ اور یہ سب لوگ آپ کے اردگرد ہی ہیں۔ انھیں ڈھونڈئیے اور ان سے ہمدردی رکھیے۔ جو پہلے ہی زمانے کے ستائے ہوئے ہیں انھیں اور کیا ستانا۔۔ بلکہ ان کا ہاتھ پکڑ لیجیے، ممکن ہے وقت کے گھومتے اس پہیے پر نیچے جانے کی اگلی باری آپکی ہو۔

آرٹیکل ۔۔۔ بقلم کائنات بشیر