Friday, August 13, 2010

یوں دی ہمیں آزادی

میرا یہ آرٹیکل چودہ اگست کو اردو پوائنٹ پر بھی پبلش ہو چکا ہے،
 
یوم آزادی
 
یوں دی ہمیں آزادی کہ دنیا ہوئی حیران
اے قائد اعظم ترا احسان ہے احسان

بچپن میں جب بھی کبھی یہ ترانہ سنا تو دل اک عقیدت، جوش اور جذبے سے معمور ہو جاتا تھا اور اپنی پہچان اپنے وطن پر اک فخر اور غرور سا محسوس ہوتا۔ اور ان قوموں پر اک رحم سا محسوس ہوتا جو ابھی آزادی کی جنگ لڑتے لڑتے اس منزل کو پانے کی جدوجہد میں تھیں اور جبر غلامی کے عفریت کو اپنا خون پلانے پر مجبور تھیں۔

بذات خود آزادی کسے اچھی نہیں لگتی، اک ننھی سی چڑیا کو پنجرے میں بند کر دیکھیے، وہ اپنے راگ الاپنے بھول جائے گی۔ حسرت سے نیلے آسمان کو دیکھتے اپنے پر پھیلائے گی، مگر پنجرے کی دیواروں سے ہی پھڑ پھڑا کر رہ جائے گی۔ اور اگر اسے سونے کے پنجرے میں بھی بند کر دیا جائے۔ تو اس کی آزادی کی قیمت کے لیے دنیا کی تمام دولت بھی بےکار ہو گی۔ بس اس پر اک ننھا سا احسان کر دیں، پنجرہ کھول دیجئے اور اسے آزادی کی پرواز دیجیے، وہ فورا یہ راگ الاپتی آسمان کی بلندیوں میں کھو جائے گی۔
پنچھی بنی اڑتی پھروں مست گگن میں
آج میں آزاد ہوں دنیا کے چمن میں

اقبال کا خواب جو نہ جانے کتنے لوگوں کی زندگی کی تعبیر بنا۔ اور قائد اعظم کی کوششوں سے منزل تک پہنچا۔ اور لاکھوں لوگوں کی عظمتوں کے ایثار سے پورا ہوا۔ تب پاک سرزمین نصیب ہوئی۔ انسان کی سب سے بڑی چاہ اپنے گھر کی ہوتی ہے۔ جب گھر مل جائے تو پھر اسے سجانے سنوارنے کی۔ گھر اپنا گھرپیارا گھر پاک وطن تو مل گیا تھا۔ جب یہ ملا تو سنگل سٹوری تھا، تریسٹھ سال گزر گئے اب تک تو اسے ٹرپل سٹوری بن جانا چاہیئے تھا مگر۔ ۔

لوگ ایکٹروں کو دیکھ کر خوش ہو لیتے ہیں پر والد صاحب نے اپنے ٹین ایج میں قائد اعظم کو لائیو دیکھا تھا کسی جلسہ گاہ میں تقریر کرتے۔ جس پر میں اور بھائی بھی اک فخرسا محسوس کرتے تھے کہ انھوں نے اتنی عظیم ہستی کو دیکھا ہوا ہے اور ہم ان سے بار بار قائد اعظم بارے پوچھا کرتے تھے۔ کہ وہ کیسے تھے اور کیسے دکھتے تھے؟ تب وہ بتایا کرتے تھے کہ قائد اعظم دیکھنے میں ایک کمزور، نحیف ہستی نظر آتے تھے مگر ان کی آواز اتنی بھر پور اور پرجوش ہوتی تھی کہ وہ اک ولولہ نظر آتا تھا ان کی تقریر میں۔
پھر اقبال کی یہ خوبصورت نظم بہت سننے میں آتی تھی اور سن سن کر زبانی یاد تھی۔
لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری
زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری
اور یہ نظم سن کرخود بخود اک شمع سی اندر روشن ہو جاتی تھی، جو اک اچھا انسان محب وطن اچھا شہری بننے کی ترغیب دیتی تھی۔ سکول میں جب اسمبلی اٹینڈ کرتے تودعا کے بعد روزانہ یہ پڑھتے،
پاک سر زمین شاد باد
کشور حسین شاد باد
اور روزانہ یہ دعا ہمیں یاد دہانی کراتی اپنے پاک وطن کی، اس کی خوبصورتی کی، اس کی عظمتوں کی، اور دل سے اک عجیب سا جذبہ اور کیفیت ابھرتی جو ہمارے ملک کی عظمت کو برقرار رکھنے کے لیے محب وطن بننے کی متقاضی ہوتی۔ اور پاک ترانہ تو ہمارے اندر ایسا رچ بس گیا تھا کہ صاف لگتا کہ مذہب کے بعد ہم نے اس کا احترام کرنا ہے۔ جہاں بھی بجتا تو فورا کھڑے ہو جاتے، رک جاتے۔ اور ترانے کے ادب کا نظارہ چند بار سینما میں بھی دیکھنے میں نظر آیا۔ فلم کے دوران بے شک لوگ ڈائلاگ بازی پر اونچی آوازے کس رہے ہوں۔ شور شرابا ہو رہا ہو۔ بچوں کی ریں پیں چل رہی ہو۔ لیکن ترانہ شروع ہوتے ہی سب منظم ہو جاتا۔ سب احتراما کھڑے ہو جاتے، لوگوں کو جیسے سانپ سونگھ جاتا اور بچوں کو بھی رونا بھول جاتا اور مزے کی بات پھر بھی احتیاطا سینما کے گیٹ تب تک نہ کھلتے جب تک ترانہ پورا نہ ہو جاتا۔ سمجھ لیں اک جذبہ داخلی بھی ہوتا جو منظم رکھتا مگر پھر خارجی انتظامات بھی ہوتے۔

مگر اب کیا ہوا؟ اب بھی وہی چاند ہے وہی تارے وہی سورج وہی نظارے۔ چودہ اگست آج بھی دھوم دھام سے منائی جاتی ہے۔ جگہ جگہ سجایا جاتا ہے ترانے بجتے ہیں، چھوٹے چھوٹے بچے تک پرچم کی جھنڈیاں لہرا رہے ہوتے ہیں۔ مگر وہ بات بنتی نظرنہیں آتی جو ہمیں یہ بتائے کہ ہاں ہم واقعی محب وطن ہیں۔ میرا خیال ہے اب زمانے میں نفسا نفسی کی چال چلتے دکھاوا جو آ گیا ہے۔ تو یہ چیزیں اب صرف ظاہری پیمانے سے ناپی جانے لگی ہیں۔ اور دلوں سے وہ جذبہ ختم ہو گیا ہے جو کبھی اک جوش اک ولولہ پیدا کرتا تھا۔ اور جس نے ہمیں آزادی جیسی نعمت دلائی تھی اور اپنے گھر کی فیلنگ دی تھی۔ لگتا ہے ہم اپنے مدار سے ہٹ گئے ہیں۔ راستہ بھٹک گئے ہیں۔ اور آگے مزید خوبصورت منزلوں کی بجائے مسائل کے کالے پہاڑ اور چٹانیں راستہ روکی کھڑی ہیں۔ تبھی تو دم گھٹنے لگا ہے۔ کاش اے کاش اب پھر کوئی اقبال کی طرح حسین خواب دیکھے، اور جناح کی طرح ہمارا بیڑہ پار لگا دے،اور ہم بھی چڑیا کی طرح آزادی کا گیت گا سکیں۔


**************

No comments: