Friday, July 9, 2010

ادیبوں کی حس مزاح



ادیبوں کی حس مزاح


دلی میں ایک بہت مشہور طوائف تھی ۔۔۔ جس کا نام " شیریں " تھا ۔ مگر اس کی ماں بہت بے ڈول اور بری شکل کی تھی ۔
ایک مجلس میں " شیریں " اپنی ماں کے ساتھ مجرے کے لیے آئی ۔ سرسید احمد خان ۔۔۔ بھی وہاں موجود تھے ۔۔۔ اور ۔۔۔ ان کے برابر ان کے ایک ایرانی دوست بیٹھے ہوئے تھے ۔
وہ شیریں کی ماں کو دیکھ کر کہنے لگے "مادرش بسیار تلخ است " اس پر سرسید نے فورا جواب دیا " گرچہ تلخ است ولیکن برشیریں دارد۔"

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مرزاغالب صاحب کے خسرمرزا الہی بخش خان پیری مریدی بھی کرتے تھے ۔۔۔ اور ۔۔۔ اپنے سلسلے کے شجرہ کی ایک ایک کاپی اپنے مریدوں کو دیا کرتے تھے ۔ ایک دفعہ انھوں نے مرزا صاحب سے شجرہ نقل کرنے کے لئے کہا ۔۔۔ مرزا صاحب نے نقل تو کر دی ۔۔۔ مگر ۔۔۔ اس طرح کہ ایک نام لکھ دیا اور ایک نام چھوڑ دیا ۔۔۔ تیسرا پھر لکھ دیا ۔۔۔ اور ۔۔۔ چوتھا پھر حذف کر دیا ۔ان کے خسرصاحب یہ نقل دیکھ کر بہت ناراض ہوئے ۔۔۔ کہ ۔۔۔ یہ کیا غضب کیا ۔۔۔۔
مرزا صاحب بولے " حضرت ، آپ اس کا کچھ خیال نہ فرمائیے ۔ شجرہ دراصل خدا تک پہنچنے کا ایک زینہ ہے ، سو زینے کی ایک ایک سیڑھی ۔۔۔ اگر ۔۔۔ بیچ سے نکال دی جائے تو چنداں ہرج واقع نہیں ہوتا ۔ آدمی ذرا اچک اچک کے اوپر چڑھ سکتا ہے ۔ "
ان کے خسرصاحب یہ سن کر برافروختہ ہوئے اور انھوں نے نقل پھاڑ ڈالی ۔۔۔ اور ۔۔۔ پھر کبھی مرزا سے شجرہ نقل کرنے کی فرمائیش نہیں کی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایک روز داغ دہلوی نماز پڑھ رہے تھے ۔۔۔ کہ ۔۔۔ ایک صاحب ان سے ملنے آئے اور انھیں نماز میں مشغول دیکھ کر لوٹ گئے ۔ اسی وقت داغ صاحب نے سلام پھیرا ۔۔۔ ملازم نے بتایا ۔۔ تو ۔۔ فرمانے لگے " دوڑ کر جا ابھی راستے میں ہوں گے "وہ بھاگا بھاگا گیا اور ان صاحب کو بلا لایا ۔ داغ نے ان سے پوچھا : آپ آ کر چلے کیوں گئے ۔ ؟ وہ کہنے لگے " آپ نماز پڑھ رہے تھے اس لئے میں چلا گیا ۔ "
داغ نے فورا جواب دیا " حضرت ، میں نماز پڑھ رہا تھا ۔ لاحول تو نہیں پڑھ رہا تھا جو آپ بھاگے ۔ "

۔۔۔۔۔۔۔۔۔


ایک بار داغ دہلوی ۔۔۔ اجمیر گئے ۔ جب وہاں سے رخصت ہونے لگے ۔۔ تو ۔۔۔ ان کے شاگرد نواب عبداللہ خاں مطلب نے نے کہا
" استاد آپ جا رہے ہیں ۔ جاتے ہوئے کوئی نشانی تو دیتے جائیے ۔ "
یہ سن کر داغ نے بلا تامل کہا
داغ کیا کم ہے نشانی کا ، یہی یاد رہے


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


مولانا حالی کے پاس ان کے ایک ملنے والے غزل لکھ کر لائے ۔۔۔ اور ۔۔۔ برائے اصلاح پیش کی ۔
غزل میں کوئی بھی مصرع عیب سے خالی نہ تھا ۔ مولانا حالی نے تمام غزل پڑھنے کے بعد ۔۔۔ بے ساختہ فرمایا " بھئی غزل خوب ہے اس میں تو کہیں انگلی رکھنے کو بھی جگہ نہیں ۔ "

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

No comments: