لائف بوائے اور تبت سنو کریم
جب بھی کوئی کمپنی اپنی کسی پروڈکٹ کی مارکیٹنگ، ترسیل کرتی ہے اور اسے بازار میں لاتی ہے، تو اس کے لیے مبالغہ، بلا مبالغہ حربے بھی استعمال کرتی ہے۔ یقینا یہی نکتہ لائف بوائے سوپ اور تبت کریم کے لیے بھی استعمال کیا گیا ہو گا۔ پر اسوقت ان کو ذرا سا بھی اندازہ نہیں ہو گا کہ یہ صابن، کریم آدھی سے بھی زیادہ صدی کی پروڈکٹ بننے والی ہیں۔ اور نسل در نسل چلنے والی ہیں۔ اور حقیقتا بھی جوڑی دار ہیں ورنہ ایک ہی کمپنی یہ دونوں بنا لیتی۔ پھر اشتہار کچھ یوں ہوتا کہ پہلے لائف بوائے سے نہائیے، پھر تبت کریم لگائیے اور اپنے حسن کو چار چاند لگائیے۔ ایک ہی سیلزمین سے دونوں کام ہو جاتے۔ اور کام شروع ہونے سے پہلے ہی بچت بھی شروع ہو جاتی۔
یہ دونوں پروڈکٹ سادگی کے زمانے کی پیداوار ہیں۔ میرا نہیں خیال کہ ان کو زیادہ مقابلے کی فضا سے بھی گزرنا پڑا ہو گا۔ بلکہ وہ مصطفے قریشی والی چائے کی طرح لائف بوائے ٹھاہ کر کے لوگوں کے سینے سے جا لگا ہو گا۔ کیونکہ کچھ روایتی لوگ ابھی بھی اسے سینے سے چمٹائے ہوئے ہیں۔ اور تبت کریم کو بھی اس زمانے کی حسیناؤں نے ہاتھوں ہاتھ لیا ہو گا اوراسکا مقابلہ بھی صرف پونڈ کریم سے ہی ہوا ہو گا۔ پھر بھی یہ اپنی جگہ بنانے میں کامیاب رہی۔ میں نے جب ہوش سنبھالا تو دیکھا نانا، دادا کی زندگی میں لائف بوائے اور نانی، دادی کی زندگی میں تبت کریم ہلچل مچا چکی تھی۔ میں نے دیکھا تھا کہ لائف بوائے سے سب بزرگ خوش ہو کر نہاتے تھے۔ اور سب اسے نہانے کا صابن کہتے تھے۔ دراصل یہ باقی لوگوں کو تنبیہہ ہوتی تھی کہ کہیں کوئی اس سے کپڑے نہ دھو لے۔
ویسے یہ اپنے آپ میں مردوں کا صابن تھا جیسا کہ نام سے ظاہر ہے لائف بوائے تو لگتا کہ شائد اس سے نہا کر ایک لڑکے کی لائف بن جائے گی۔ لیکن اس سے تو باجماعت پوری فیملی نہا لیا کرتی تھی۔ کیونکہ تب شائد لوگوں کی اصطلاح بھی بڑی مخصوص تھی۔ نہانے کا صابن اور کپڑے دھونے کا صابن کہہ کر بات ختم ہوجاتی۔ میں نے جب لائف بوائے صابن کا بغورجائزہ لیا تو اس کا رنگ نہ تو لال تھا اور نہ ہی گلابی۔ بلکہ تربوز کے رنگ سے میچ کر کے اسے ظاہری شکل دی گئی تھی۔ سو یہ ہلکے تربوزی رنگ کا لگتا تھا۔ کیونکہ چھوٹے بچے اسے منہ میں ڈٓالنے اور چوسنے کی کوشش کرتے تھے۔ پھر لائف بوائے سونگھنے سے اسکے پرستاروں کو خوشبو آتی تھی اور باقی لوگوں کو بو، لیکن اس کا ایور گرین فائدہ مجھے بعد میں پتہ چلا۔ جبکہ اب تو صابن کم اور نئے جدید لوازمات کافی ہیں۔ میں نے کچھ کرم فرماؤں کو زمانے کے تغیراور بےشمار رنگ برنگی ایجادات کے باوجود پھر بھی اس سے مسلسل جڑنا دیکھا تو شکوہ کرہی دیا۔ اور مجھے جواب ملا کہ یہ صابن گھلتا کم ہے اس لیے خرچ کم ہوتا ہے۔ مہمان کو تو خاص طور پر یہی صابن دیا جاتا ہے۔ آخر اسے اتنی فضول خرچی کی اجازت کیسے دی جا سکتی ہے۔ یہ جان کر جو میرے من میں پھلجھڑی چھوٹی تو بیان سے باہر ہے۔ کیونکہ لائف بوائے واقعی ایک ڈھیٹ قسم کا صابن ہے جس سے جھاگ کم بنتا ہے۔
زاویہ کتاب پڑھ کے پتہ چلا کہ اپنے میرا مطلب آپ سب کے رائیٹراشفاق احمد کا یہ پسندیدہ صابن تھا اور وہ بھی اس کے فین تھے کیونکہ انھیں بھی اس سے خوشبو آتی تھی۔ اس زمانے میں یقینا بڑے لوگ اور اداکار کسی بھی کمپنی پروڈکٹ کی مارکیٹنگ نہیں کرتے تھے کہ لوگ کیا کہیں گے۔ ورنہ اشفاق احمد بھی لائف بوائے کے ساتھ اپنا ایک ایڈ بنوا لیتے۔
ادھر تبت کریم بھی بڑے آرام سکون سے اپنی جگہ بنا چکی تھی۔ یہ کریم عورتوں کی زندگی میں شامل تھی۔ اسے ہی لگائے جاؤ لگائے جاؤ، ختم ہو جائے تو جا کر جام جم کی طرح اور لے آؤ۔ اس کی گول شیشی ایک ایسی پیکنگ میں ہوتی تھی۔ جس کی ایک سائیڈ ایک عورت کا چہرہ دکھائی پڑتا تھا اور دوسری طرف ایک پہاڑاور خوبصورت مقام کا منظر تھا۔ جواس وقت مجھ نادان کی سمجھ سے باہر تھا۔ شائد اس کا مطلب یہ ہوتا ہو گا کہ پہلے عورت تبت کریم لگائے اور پھر تبت کے پہاڑوں میں چلی جائے۔ ویسے کریم کا رنگ بذات خود بڑا چٹا تھا۔ اور اس میں اک چمک بھی نظر آتی تھی۔ اور سب عورتیں ایک تو بالوں میں پف شوق سے بنایا کرتیں پھر تبت کریم لگا کر ان کا میک اپ مکمل ہو جاتا۔ اور وہ ریلیکس ہو جاتیں کہ اب چاہے کوئی اچانک کا مہمان چھاپہ مار لے یا مجازی خدا کام سے گھر آ جائے۔
تب کہاں خبر ہو گی،
کہ اسکن کتنے ٹائپ کی ہوتی ہے۔ اور اس کے حساب سے کریم تیار کی جائے اور صارفین تک پہنچائی جائے۔ جو بنا دیا اسے سیل کے لیے مارکیٹ پہنچا دیا اور صارفین بیچارے تو مظلوم اور ان کمپنیوں کے ویسے ہی محتاج، لہذا میں کبھی کبھی سوچ کر مسکرا دیتی ہوں کہ تبت کریم اصل میں ایک نرشنگ کریم تھی۔ جو ظاہر ہے کہ اسکن کو غذائیت تو دیتی ہو گی مگرنرشنگ کریم لگانے سے جلد میں کچھ کھنچاؤ سا پیدا ہو جاتا ہے۔ سو کچھ عورتوں کی خشک جلد کے لیے یہ بالکل بھی مناسب نہ تھی۔ لیکن ان کے پاس اسکا متبادل بھی نہ تھا۔ اور اسکن پر کھنچاو محسوس کر کے وہ بیچاری یقینا مزید کریم استعمال کر لیتی ہوں گی۔ بہرحال پھر بھی اسے لگا کر ایک عورت اپنے آپ کو اس پیکنگ والی حسینہ جتنا ہی خوبصورت محسوس کرتی ہو گی۔ تب عورتیں بغیر آئینے میں دیکھے چہرے پر کریم مل مل کر فارغ ہو جاتی تھیں۔ کہ اب اسکن جانے یا کریم،
جبکہ آجکل کسی لڑکی کے چہرے پر ایک پمپل بھی نکل آئے تو فکر سے اسکی جان جل جاتی ہے۔ ٹماٹر، چاکلیٹ کھانے بند کر دئیے جاتے ہیں، دس لوگوں کو بتا کر اپنی پریشانی شیئر کی جاتی ہے۔ بار بار آئینے میں اس پمپل کا دیدار کیا جاتا ہے۔ اور جب تک وہ چلا نہ جائے اپنی اسکن کو ہی اچھوت کی طرح ہاتھ لگایا جاتا ہے۔ ورنہ پہلے عورتیں اول تو گورے ہونے کے چکر میں لائف بوائے سے مل مل کرمنہ دھوتی تھیں اور دن میں کئی کئی بار یہ عمل کرتی تھیں۔ پھر رہی سہی کسر مل مل کر لگائی کریم سے پورا کر لیتی تھیں۔
اب اپنے آپ میں یہ دونوں پروڈکٹ جو بھی کمال رکھتی ہوں۔ لیکن ان کا اتنے سالوں سے اپنا وجود اپنی بقا رکھنا حیرت انگیز ہے۔ دنیا میں لوگ آتے ہیں چلے جاتے ہیں۔ چیزیں بھی آنی جانی چیز ہیں۔ ایک مارکیٹ سے غائب ہوتی ہے تو اس کی جگہ دس آ جاتی ہیں۔ لیکن آدھی پونی صدی سے شروع ان دونوں کا سفر آج بھی جاری ہے۔ جو ایک ہی سمت میں کیا گیا ہے۔ ورنہ اپنی بنائی ایک ہی پروڈکٹ کو کمپنی کچھ عرصے بعد خود ہی دیکھ دیکھ کر بور ہو جاتی ہے تو اس میں کچھ نیا کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ زیادہ نہیں تو اس کی پیکنگ ہی ذرا تبدیل کر کے صارفین کے لیے جاذب نظر بنا دیتی ہے۔ مگر لائف بوائے اور تبت کریم بہت عرصے تک ایک ہی پیراہن استعمال کرتے رہے ہیں۔ پھر بھی انھوں نے اپنا نام گمنام نہیں ہونے دیا۔ بلے بھئ بلے، زمانے کی ہوا اور وقت کی اڑان سے اتنا ضرور ہوا ہے کہ پچھلے دنوں میں نے ٹی وی پر تبت کریم بنانے والی کمپنی کی اب کچھ اور پروڈکٹس بھی دیکھی ہیں۔
سو لاتعداد شمپوز، باڈی واش، باڈی لوشن کے استعمال کرنے والوں کے درمیان یقینا کہیں نہ کہیں ایسے مہربان ضرور موجود ہوں گے جو ان لوازمات کے بالمقابل یہی دو چیزیں استعمال کر کے راحت پاتے ہوں گے۔ تو کوئی حرج نہیں۔ شوق سے اپنے دل کی خواہش پوری کیجیے کیونکہ اب لائف بوائے اور تبت کریم تو ویسے بھی روایتی انداز میں زندگی میں شامل رہیں گے۔
کائنات بشیر
*******